حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

روتے روتے اَشکوں کا دریا سا بہہ گیا ہے


روتے روتے اَشکوں کا دریا سا بہہ گیا ہے
عاشِق ہے وہ کیسا خاموش رہ گیا ہے

پیاسا رہ گیا ہوں دریا بھی پی لیا ہے
تِشبگی نہیں بُجھتی کیوں پیاسا رہ گیا ہے

میں مُشکلوں سے جیتا ساحل پے رو رہا ہوں
یُوں لگتا ہے جیسے مُجھ سے کِنارہ رہ گیا ہے

غیروں میں بھی ساتھی کوئی نہیں ہے اپنا
اپنوں میں ڈیرہ ڈالے دُوجا سا رہ گیا ہے

اِک جُستجو ہے میری کب سے جلائے مُجھ ک
میری شمع بُجھ گئ ہے پروانہ رہ گیا ہے

کُچھ بُرا نہیں ہے تو ڈر کیوں لگے ہے مُجھ کو
اچھوں میں رہ کر اچھا شرمِندہ رہ گیا ہے

مَنزل پر پہنچ کر میں رہ گیا تھا خالی
کیوں جیت کر بھی سب کُچھ ہارا سا رہ گیا ہے

اب غم نہیں ہے پھر بھی عاشِق کیوں رو رہا ہے
تنہا نہیں ہے پھر بھی تنہا سا رہ گیا ہے

مَحبوب کو پا کر بھی مَحبوب رو رہا ہے
یوں رویا دو قدم پیچھے مرا یار رہ گیا ہے

لاکھوں بلائیں آئیں خُود نہ بچایا خُود کو
کیوں مُشکلوں میں پھنس کر آساں سا رہ گیا ہے

غموں سے محبت کرنا جُنید سیکھ لی ہے اب تو
لاکھوں غموں نے مارا پھر بھی مُسکُراتا رہ گیا ہے

Download here.