حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے


جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے
اُس وقت سے میں نے ہنسنا چھوڑ دِیا ہے

پہلے جب آہینہ تکتا کُچھ اور ہی دِیکھا کرتا تھا
جب سے خُود کو دیکھا ہے آئینہ توڑ دِیا ہے

پہلے سب کُچھ ہی میرا تھا کہ میرے پاس تُو تھا
جب سے بچھڑا ہے تُو سب نے مِلنا چھوڑ دِیا ہے

شبِ غفلت میں بیداری گِراں تھی جانی میں نے
جب سے جاگا ہوں تب سے سونا چھوڑ دِیا ہے

اِیک وقت وہ تھا کہ پَید پَنچِھیوں کا آستانہ تھا
جب سے اُجڑا ہے پید پنچِھیوں نے آنا چھوڑ دِیا ہے

سوچا تھا تُجھے لیئے اُس گگن میں اُڑ جاؤں گا
جب سے پنجرہ دیکھا ہے میں نے اُڑنا چھوڑ دِیا ہے

اندھیری راتوں میں پہلے تو کوئی راہنُما تھا جُنید
جب سے اکیلا ہوا ہوں اُن راہوں میں جانا چھوڑ دِیا ہے

Download here.

اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے


اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے
مل کر بچھڑنا مُجھے یاد آتا ہے

ٹھنڈی ہوا کی مانند تیری باتیں
اور اپنا سرد ہونا یاد آتا ہے

شوخ رنگوں میں بھیگا سا وہ آنچل
اور تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

مُشکِلوں کے دریا میں ڈُوبنا میرا
بچ نِکلنے میں سہارا یاد آتا ہے

تُو بچھڑ گیا کب کا مگر ایسا لگتا ہے
تُو ابھی بچھڑا ہے جیسے یاد آتا ہے

میں تنکا تھا تُو نے مُجھ کو ہیرا سمجھا
تیرا وہ تعریف کرنا یاد آتا ہے

تو جب گھائِل ہوتا تو رویا کرتا تھا
مُجھے تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

میں بِکھر کر آتا تیری پناہ پاتا
تیرا وہ دِلاسہ دینا یاد آتا ہے

تری آنکھو‌ں سے بہتے ساگر کو سمیٹنا
اور پلکوں پر سجانا یاد آتا ہے

عرصہ ہو چلا جُنید وہ دُور ہو چُکا ہے
لگتا ہے بچھڑا ہو ابھی یاد آتا ہے

Download here.

جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے


جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے
ہر سُو تیری آمد کا چرچا کرایا ہے

تیری خاطِر خُوشیوں سے مُنہ موڑ رکھا ہے
تیرے لیے ہی خُود کو میں نے آگ میں جَلایا ہے

قسم خُدا کی تُجھ سا حَسِیں مری آنکھوں نے نہ دیکھا ہے
جب سے تیرا جلوہ میری آنکھوں میں سمایا ہے

کیا بسے گا کوئی گُل و زار آنکھوں میں
تیرے دَرّ کا خَار میں نے آنکھوں میں سجایا ہے

کاہے کو مُشکِل میں میں تنہا ہو جاوں گا
اُمید سے ہوں ترا سنبھالا کام آیا ہے

کیوں نہ تیرے آنے سے خُوشیاں مناؤں میں
ہر ذَرّے نے ترے آنے کا جشن منایا ہے

جِس خَار کو چُھوا تُو نے پُھول بنا دِیا اُس کو
اور تُو نے آتے جاتے مُردہ جِلایا ہے

غم کے بادَل چَھٹ گئے روشنی ہُوئی چار سُو
یہ اُجالا ترے چہرے کی صُبح نے پھیلایا ہے

تیری آمد سے ہر غم خُوشی میں بدل گیا میرا
مگر تیری یاد نے مُجھے زار و زار رُلایا ہے

خیر سے آئیں وہ دِن زِندگی میں میری
میں کہوں دَرّ کا مُجھے خاکروب بنایا ہے

تُجھ سے نہ مانگیں تو کِدھر کو جائیں ہم
کیوں دَرّ دَرّ پِھریں سَگ یہاں دانہ پانی پایا ہے

تیرا کرم ہے پیارے جو مقام میں نے پایا ہے
ورنہ مُنہ کہاں جُنید کا جو لفظوں نے دِکھلایا ہے

Download here.

وہ قطرہ جو مری آنکھوں سے بہا کرتا ہے


وہ قطرہ جو مری آنکھوں سے بہا کرتا ہے
تری دُوری کے غم کو اور زیادہ کرتا ہے

تمنا کیے ہوں میں تیرا چہرہ کِھلاؤں گا
مگر اِدھر تیرا آنسُو اُدھر میرا گرا کرتا ہے

بجلی جو کڑکی تھی تُجھے ساتھ نہ پایا
وہ خیال تھا جِس میں تُو ساتھ دِکھا کرتا ہے

بِکھر گئے وہ لمحے جن میں آرزُو سجائی تھی
اب آہوں کا زخم مرے دِل سے رَسا کرتا ہے

مُسکُرایا بھی دِل سے میں مگر مُسکُرایا نہ گیا
ترا غم مری خُوشیوں پے حاوی رہا کرتا ہے

تُجھ سے مِلنا مُجھ کو محبوب نہیں ہے پیارے
کہ دُور ہو کر پاس ہونا بھی جُدائی کرتا ہے

صُورت آئینے میں دیکھی تو کُچھ اور ہی دیکھا تھا
یہ وہ چہرہ ہے جس کو یار تکا کرتا ہے

غم کی حالت میں تنہائی کاٹے ہے مُجھ کو
ہر آہ سے دِل مرا حَلق میں لگا کرتا ہے

میں غمگین ہوں آج تُو بہت دُور ہے مُجھ سے
یہ کیسا ہے اپنا جو غیر دِکھا کرتا ہے

تری آنکھوں میں اَکثر آنسو رہا کرتے ہیں
اور اِدھر ترا رونا مُجھ کو غمگین کرتا ہے

مُجھے کوئی غم ہو تو مُجھ پے آہ نہیں جچتی
ترا دامن ہر وقت میرے لیے کُھلا کرتا ہے

توصل اُن کے ترے قدموں میں مُجھے موت آئے گی
یہی خُواب مری سانسوں کو رواں کیا کرتا ہے

میں آفسانوں میں خُود کو گنوائے ہوئے ہوں جُنید
کہ لفظ لفظ مرا آنسُوؤں سے سجا کرتا ہے

Download here:

تیرا غم جب مُجھ کو بے قرار کیا کرتا ہے


تیرا غم جب مُجھ کو بے قرار کیا کرتا ہے
مری آنکھوں سے اِک سیلاب بہا کرتا ہے


تیری مُحبت کی ایک نِشانی دیکھی ہے میں نے
جب محفِل میں تُو مُجھ سے اِصرار کیا کرتا ہے


تُو جو ساتھ ہوتا ہے یادوں میں میرے
میرا دُشمن بھی مرا لِحاظ کیا کرتا ہے


تُو میری زندگی ہے میں قائم ہوں تُجھ سے
تیرا ساتھ مری سانسوں کو رواں کیا کرتا ہے


میں بادل ہو کر جب خُوب برسا کرتا ہوں
تو تُو آسماں بن کر مُجھ پر سایہ کیا کرتا ہے


اِس سبب سے میری زندگی قائم ہے جُنید
جب تیرا آنا دوستوں کو ناراض کیا کرتا ہے


وہ وقت بہت پیارا ہے بہت بھاتا ہے مُجھ کو
جب میرا یار مُجھ کو ناراض کیا کرتا ہے


وہ چھوڑ گئے تھے مُجھ کو اِن سُنسان راہوں میں
وہ کیا جانیں کون کِس کا کیسے اِنتظار کیا کرتا ہے


مُجھے اپنی پلکوں کے آنسُوؤں کا دوست رکھنا
اُن سا نہیں جو تیری آنکھوں سے گِرا کرتا ہے


رشتہ مرا اُن سے یُونہی قائم ہے جُنید
کہ مُجھے وہ تلخ باتوں سے یاد کیا کرتا ہے


آؤ جُنید اُن کو یُونہی یادوں میں بسا لیں
کے خزاں میں مرا وہ آشیانہ آباد کرتا ہے


Download here.

تیری پلکوں پے سجا آنسُو اُمید تیری ہے


تیری پلکوں پے سجا آنسُو اُمید تیری ہے
تیرا آنسُوؤں سے بھیگا آنچل اُمید تیری ہے

گُزر رہے ہیں شب دِن میرے یاد میں تیری
مت سوچنا کہ آہوں میں بس جیت تیری ہے

پَل پَل مُجھے تُو یادوں میں ستایا مت کر
یہ لمحہ تیرا ہے میرا اور اُمید تیری ہے

سجائے پلکوں پے آنسُو تُو کِتنا حَسین لگتا ہے
اور میرے مُرجھائے چہرے کی زندگی تیری ہے

وقت اَفسُردہ گُزر رہا ہے میرا یادوں میں تیری
لمحہ لمحہ جُدائی ہے قُربت اور دُوری تیری ہے

اِنصاف سے میرے اشکوں کا شکوہ کرنا وہاں
جہاں “لا“ نہیں ہے مُسکُراہٹ تیری ہے

تُجھ سے کوئی بھی بُھولے سے وفا نہ کر سکا
یہ جہاں نہیں ہے تیرا مگر یہ زندگی تیری ہے

فُرصت کے لمحات مُجھے رونے نہیں دیتے
تیری یاد میرا کام ہے اور اُمید تیری ہے

مُسکُراتے لمحوں کو اب اُنکی جانب بھیج دو جُنید
جو کہہ چُکا یہ دِل تیرا ہے یہ جان تیری ہے

Download here.

عزت سے آئے ہے سُواری محبوب کی


عزت سے آئے ہے سُواری محبوب کی
عاشِق ہوئے ذلیل بھیڑ میں جا رہا ہے

تنہائی میں دُلہن رو رو کر مر گئی
جنازے کو دینے کاندھا دُولہا جا رہا ہے

ساری عُمر رو رو کر عاشِق تنہا مر گیا
اب ہنستے ہوئے یار کا جنازہ جا رہا ہے

یہ جگہ ہے کیسی اور میرا یار کہاں ہے؟
عاشِق کو کھائے غم چھوڑے جنازہ جا رہا ہے

کاہے کو عاشِق چل چل کر پاؤں تَھکاتے ہیں
اِدھر خَیالوں میں مِلنے میرا یار آ رہا ہے

عاشِق اندھا ہوئے بِیچ بازار گِر گیا ہے
لوگوں میری آنکھوں میں یار کا چہرہ آ رہا ہے

غَم سے آہ یُونہی نہیں کیے ہیں سارے
ہر ذَرّہ میرے یار کا پَیغام سُنا رہا ہے

تنہائی میں عاشِق اَشکوں سے مَحفِل سجائے ہے
ہائے یار قریب ہے عاشِق دُور جا رہا ہے

آنکھیں خُشک ہیں دونوں میرا دِل رو رہا ہے
دَکھتا ہے محبوب بار بار بِچھڑا جا رہا ہے

یُوں جلنا آگ میں اِک پل بھی چین نہ آئے
بے ہوش ہوئے یادوں میں زَمانہ جا رہا ہے

سَنبھلتا نہیں ہے دِل مرا حَلَق میں آ نِکلا
دَھم سے گرا وُجُود یہ جُنید جا رہا ہے

Download here.

عاجَز تو کب سے ہیں محبوب کے غم میں


عاجَز تو کب سے ہیں محبوب کے غم میں
اَشکوں کی صورت میں نتائج مِلتے ہیں

خِاک دریا میں ڈُوب کر میں آنسُو بہاؤں
میرے اَشکوں میں بہتے دریا مِلتے ہیں

میں اُن گلیوں میں تنہا پڑا ہوں جُنید
جہاں ایک جاتا ہے اور چار مِلتے ہیں

اک پل بھی کہاں دِل میں میں سُکون پاؤں
کہ سیخ کباب ہوئے وُجُود مِلتے ہیں

میری آنکھوں کو دید کی روشنی دے دو
کب سے ہوئے اَندھے ہوشیاروں میں مِلتے ہیں

یُونہی خُود کو لاکھ زَخم نہیں دیتے ہیں ہم
کہ راستے میں لاکھوں اپنے ہَمراز مِلتے ہیں

میں پیاسا ہوں کب سے تِشنگی نہیں بُجھتی
میرے اَندر جوش مارتے دریا ہزار مِلتے ہیں

میں کب سے آنکھیں اُنکی یاد میں سرد کیے ہوں
میرے آنسُوؤں میں بہتے دو جہان مِلتے ہیں

اِنہیں لَمحوں میں جیت کر ہارا ہوں جُنید
جِن لمحوں میں مُجھے میرے مَحبوب مِلتے ہیں

اَپنوں کا پیارا بھی ہو کر اَپنوں سے گھائَل ہوں
مُجھے سَتانے میں مرے اَپنوں کے نِشاں مِلتے ہیں

میں کیسے اِس راز کو مُنکشف کروں جُنید
کہ ہر جواب میں چُھپے لاکھوں اَسرار مِلتے ہیں

Download here.

وہ ساون جو میری آنکھوں میں آیا ہے


وہ ساون جو میری آنکھوں میں آیا ہے
بہہ بہہ کر میرے لمحوں کو سجایا ہے

ترے چہرے کو ڈُھونڈتی ہیں آنکھیں کب سے
تبھی اِس محفِل کو سوگوار بنایا ہے

دِلِ بِسمِل کی اب کون ہے جو دوا کرے گا
یہ زخم اُس تیر کا ہے جو یار نے چلایا ہے

سِسک سِسک کر زندگی کے لمحے تھمتے ہیں
کیسا ہے چاہنا تیرا جو آپ دے کر رُولایا ہے

میں ڈُوب چُکا ہوں اُس سمُندر میں جُنید
جو میرے یار نے اشکوں کا بہایا ہے

میری آنکھیں بھیگی ہیں آنسُو بے حِساب بہتے ہیں
تُو کِس قدر پیارا ہے جو یادوں میں سمایا ہے

تُجھے یاد کرتا ہوں تُو جانے ہے میں کون ہوں؟
ہاں وہی جِس نے غم میں اپنا آپ جلایا ہے

تُو ہنس رہا ہے کیسے تیرا دِل غم سے گھائل ہے
میں رو ریا تنہا تیری باتوں نے ستایا ہے

قدر تُو نے کی سب نے ٹُھکرا دیا تھا مُجھ کو
یہ دِل لگایا کیوں اُس سے جو آنکھوں میں سجایا ہے

میں اَشکوں میں اپنی قلم ڈُوبائے بیٹھا ہوں جُنید
اب غم یہ جا چُکے ہیں جب لفظوں کو نچایا ہے

تیرا دُور ہونا مُجھ سے مُجھے کھائے جاتا ہے
تُو کیسا ہے دُور رہتے گھر دَل میں مرے بنایا ہے

میں سب رکھے بھی خُودی سے مُفلِس ہو گیا ہوں
تیرے لیے میں نے دِل کا ہر ارماں لُٹایا ہے

کُچھ تو رحم کر لے چند لفظ بھیک دے دے
اُنہی لفظوں کی دینا جن میں اپنا مُجھے بتایا ہے

میں دوستوں میں رہ کر بھی تنہا ہو چُکا ہوں
کیسا ہے ساتھ تیرا جو یادوں نے دِکھلایا ہے

میں غم سے چُور ہوں تُجھے یاد کرتا ہوں
تُو نے ہر مُشکِل میں ساتھ میرا نِبھایا ہے

انجان نگر میں دُوجے لُوٹ سکے نہ مُجھ کو
یار تُو کیسا ہے جس نے خُودی پر لُٹوایا ہے

یہ غم سے بھرا افسانہ کیا لِکھ دیا ہے جُنید
جہاں سیدھا لگنا تھا وہاں اُلٹا ہی گِرایا ہے

Download here.

چل کے وہ اِدھر بیچ مکان آئے ہے


چل کے وہ اِدھر بیچ مکان آئے ہے
ہائے او ظالِم کیا داد کمائے ہے

مُجھے پُھونک کر بھٹی میں خاک کر دیا
اب تُجھ کو مرے مَزار پر قرار آئے ہے

آؤ تُمہاری خاطِر ہی آنکھیں بچائے ہیں
مُجھے آرام دو سب کو جَلال آئے ہے

سُورج بھی سامِنے تیرے پِھیکا پڑ گیا
تُجھے دیکھ کر چاند کو بھی داغ آئے ہے

کُچھ دیر قیام کیے تھے رِیاضَت تھی بہت
مت جا او نازُک تُجھے آرام آئے ہے

ساتھ چھوڑ کر مرا یُوں نہ جاؤ پیارے
مرے دُشمنوں کو مرا خیال آئے ہے

اچھا کیے ہو یار مُجھ سے پردہ کیے ہو
لوگوں میں چاند سُورج اور غُرور آئے ہے

دیکھ لیتے ہیں جُنید اُن کا آنا کیسا رہے گا
یہ زِندگی تو گُرز گئی مُجھ کو موت آئے ہے

Download here.

مُجھے ستائے بغیر تیرا دِن نہیں گُزرتا ہے


مُجھے ستائے بغیر تیرا دِن نہیں گُزرتا ہے
خُون رُولا کر مُجھے تیرا دِل نہیں مچلتا ہے

میں تیری یاد میں اپنے صُبح و شام کھوئے ہوں
تُو کیسا ہے دُوجا جو یار ہو کر ہنستا ہے

غم سے دوچار ہوئے یہ دِن بیت گیا ہے
اور ترے چہرے پے خُوشی کا تمغہ چمکتا ہے

ہائے او بے رحم مُجھے دُور بیٹھے رُولاتا ہے
تو سوچ تو سہی میرے دِل پر کیا گُزرتا ہے

سجائے اشکوں سے چہرہ تُجھے یاد کرتا ہوں
اور تُو مری یادوں سے چُپکے چُپکے نِکلتا ہے

تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں جب خُون روتا ہوں
اور دُور ہونا ہر پل مُجھے بے چین کرتا ہے

لمحے تو ہاتھوں کی میل ہو چُکے ہیں سارے
جب سے تیرا دُور ہونا مُجھے غمگین کرتا ہے

سنبھل سنبھل کر میں قدم آگ میں رکھتا ہوں
تُو ہے کے اپنے غم میں مُجھے جَلائے رکھتا ہے

ہوش سے کُچھ تو اے جُنید کام لے لو
وہ دُور رکھ کر خُود سے تُجھے بیکار رکھتا ہے

Download here.

ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے


ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے
رو رو کر اَشکوں کا دریا بہا رکھا ہے

ڈُبائے خُودی کو غم میں روئے ہوں پیارے
جبھی یہ حال عاشقوں سا بنا رکھا ہے

اُجڑ گئے آشیانے جن کو سجایا تھا میں نے
اب اُن راہوں کو آہوں سے سجا رکھا ہے

زیادتیِ قُربت مُجھ کو مہنگی پڑ گئی جُنید
اب سارا ماحول سوگوار بنا رکھا ہے

میں اشکوں کو چُھپائے ہوں پردے میں جُنید
ڈھال اپنی میں نے لفظوں کو بنا رکھا ہے

آؤ چلتے ہیں راہ ماروں کے شہر میں جُنید
امن کے شہر میں ٹھکانہ اُجاڑ رکھا ہے

میں تلخ حقیقت سے آشنا ہوں جُنید
چھوڑ دو رونا آنسُوؤں میں کیا رکھا ہے

Download here.

وہ دِن بہت یاد آتا ہےمُجھ کو


وہ دِن بہت یاد آتا ہےمُجھ کو
جب بچھڑا تھا میں راہوں میں تُجھ سے


خُوب رو رو کر تنہائی میں آنسُو بہائے تھے
ہائے بے وفا وقت مُجھے جُدا کر دیا تُجھ سے


آج بھی اُن راہوں میں سسکیاں سی گُونجتی ہیں
جن راہوں میں رو رو کر اِلتجائیں کی تھیں تُجھ سے


دِل ٹُوٹ گیا میرا اور آنکھ بھی بہہ نِکلی
میرے اپنوں نے مُجھے جُدا کر دیا تُجھ سے


اب تو کام ہی صرف رو رو کر آنسُو بہانا ہے
وہ لمحے کتنے انمول تھے جب قریب تھے تُجھ سے


بے آسرا ہوئے کُھلے آسماں تلے رو رہا ہوں
تُو مری زندگی ہے میں قائم ہوں تُجھ سے


پیغام یہ سُنائے ہے صبا، میرا یار رو رہا ہے
مت رو پیارے میں مانگتا ہوں آنسُو تُجھ سے


پونچ ڈالو آنسُوؤں کو جُدائی بھی لمبی ہے
تُو جو چاہے کر جیسا کر گُزارِش ہے تُجھ سے

کیوں روتے ہو پیارے تُجھ پے آنسُو نہیں جچتے
ہم ہیں نہ رونے کے لیے مُسکُرائیں گے تُجھ سے


اے پیارے تُو نے تو رونا بھی سیکھا نہیں ہے
اور مُسکُرانا بھی اب تو بُھول چُکے ہیں مُجھ سے


یہ حال کیسا ہے جُنید زندگی موت ایک ہی لگتی ہے
بیہوش ہوئے ہیں عاشِق ہوش میں ہیں مُجھ سے


مان جاؤ پیارے کب تک یُونہی آنسُو بہاؤ گے؟
تُم رو نہیں سکتے ہو کیسے مُسکُرائیں گے مُجھ سے


کب تک رو رو کر تُم یُونہی دریا بہاؤ گے
ہائے ڈُوب جائیں گے پیارے اِس دریا میں مُجھ سے


ترے آنسُو دیکھ کے مرا دِل خُون روتا ہے
جیسے اُن کی مرضی بے زُباں ہیں مُجھ سے


رو رو کر پیارے اپنی آنکھیں سُجا دی تُو نے
یہ صدمہ بہت بڑا ہے نہیں سہہ سکیں گے مُجھ سے


میں مُسکُرانا بھُول گیا تُو بھی روئے جاتا ہے
مت غم دے اور پیارے یہ اِلتجا ہے تُجھ سے


میں یار کو دیکھنا بالکُل بھی اچھا نہیں سمجھتا
میں دُور ہوں اُن سے وہ چُھپائے ہیں مُجھ سے


حُکم یہ یار کا ہے یار میرا پردہ کیے ہے
بِن دیکھے تُو قائم ہے بِن دیکھے ہیں مُجھ سے


لاکھوں اوصاف ہیں اُن میں وہ ہستی ہیں جُنید
یار کہتے ہیں بیٹا اُس کو مانگتے بھکاری ہیں مُجھ سے


Download here.

روتے روتے اَشکوں کا دریا سا بہہ گیا ہے


روتے روتے اَشکوں کا دریا سا بہہ گیا ہے
عاشِق ہے وہ کیسا خاموش رہ گیا ہے

پیاسا رہ گیا ہوں دریا بھی پی لیا ہے
تِشبگی نہیں بُجھتی کیوں پیاسا رہ گیا ہے

میں مُشکلوں سے جیتا ساحل پے رو رہا ہوں
یُوں لگتا ہے جیسے مُجھ سے کِنارہ رہ گیا ہے

غیروں میں بھی ساتھی کوئی نہیں ہے اپنا
اپنوں میں ڈیرہ ڈالے دُوجا سا رہ گیا ہے

اِک جُستجو ہے میری کب سے جلائے مُجھ ک
میری شمع بُجھ گئ ہے پروانہ رہ گیا ہے

کُچھ بُرا نہیں ہے تو ڈر کیوں لگے ہے مُجھ کو
اچھوں میں رہ کر اچھا شرمِندہ رہ گیا ہے

مَنزل پر پہنچ کر میں رہ گیا تھا خالی
کیوں جیت کر بھی سب کُچھ ہارا سا رہ گیا ہے

اب غم نہیں ہے پھر بھی عاشِق کیوں رو رہا ہے
تنہا نہیں ہے پھر بھی تنہا سا رہ گیا ہے

مَحبوب کو پا کر بھی مَحبوب رو رہا ہے
یوں رویا دو قدم پیچھے مرا یار رہ گیا ہے

لاکھوں بلائیں آئیں خُود نہ بچایا خُود کو
کیوں مُشکلوں میں پھنس کر آساں سا رہ گیا ہے

غموں سے محبت کرنا جُنید سیکھ لی ہے اب تو
لاکھوں غموں نے مارا پھر بھی مُسکُراتا رہ گیا ہے

Download here.

قُربت میں لاکھوں فاصِلے حائل ہیں


قُربت میں لاکھوں فاصِلے حائل ہیں
میرے دِل کی گلیاں سُونی ہیں یار کے بغیر

یُونہی غم سے آہ نہیں کیے ہیں جُنید
خُود بھی اپنے آپ میں نہیں ہیں یار کے بغیر


میرے دِل کو سُکون سے آسُودہ کردو
میں کب سے بے چین ہوں اپنے یار کے بغیر


میرے مُسکُراتے ہوئے چہرے سے دھوکہ نہ کھانا
میرا دِل غم سے پارا ہو چُکا ہے یار کے بغیر


تنہائی میں یہ بادل کیوں برس رہے ہیں
یہ بادل نہیں آنکھ سے برستی ہے برکھا یار کے بغیر


مت میرے دِل کا حال پُوچھو کیا بتاؤں تُجھ کو
میں محفل میں رہ کر بھی تنہا ہوں اپنے یار کے بغیر


یُونہی آنکھیں نہیں جاگتی ہیں راتوں میں کب سے
تنہائی میں ایک طُوفاں برپا ہے جُنید یار کے بغیر


میں جیت کر یہ میدان خُود ہی ہار رہا ہوں
کہ جیت کر بھی میری ہار ہے یار کے بغیر


چھالے پڑ گئے ہیں پاؤں میں کانٹے بھی چُبھ رہے ہیں
ہر مُشکِل بھی اب آساں ہے مرے یار کے بغیر


سنبھالے رکھا ہے کب سے خُود کو خَوف آتا ہے
ہر خُوشی ہو چُکی ہے ہیچ مرے یار کے بغیر


لاکھ بُلبُل گُنگُناتے ہیں گیت چمن میں پیارے
مُجھے سب فُضول لگتا ہے مرے یار کے بغیر


میں منزل پر پہنچ کر بھی بھٹک چُکا ہوں
کہ آندھا ہوں آنکھوں سے میں یار کے بغیر


گُزرتے ہیں شب و روز محو یاد میں اُن کی
ہوش بھی قائم نہیں رہتے ہیں میرے یار کے بغیر


شہسُوار کا نام عجیب رکھا ہے عاشِق نے
کہ جیت کر بھی وہ ناکام ہے اپنے یار کے بغیر


میں اِمتحاں میں خُودی کو کھوئے جاتا ہوں
عجیب کشمکش کا شکار ہوں میں یار کے بغیر


یُوں کاہے کو ڈبوئے ہو تُم خُود کو دریا میں
یہ دریا وہ ہے جو بہتا ہے آنکھ سے یار کے بغیر


میں سمندر کا بادشاہ ہوں دریاؤں پے راج کرتا ہوں
نَیا ڈُوبا بیٹھا میں چشمے میں اپنے یار کے بغیر


ہر خُوشی پا کر بھی سب کُچھ عجیب سا لگتا ہے
کہ خُوشی بھی اب موت ہے میرے یار کے بغیر


یُونہی غم سے خُوشی سے بغاوت نہیں کر رکھی
کہ ہر غم بھی خُوشی بھی بیکار ہے یار کے بغیر


زخم کھا کر میں کانٹوں سے مُسکُرایا کرتا ہوں
کہ ہر کانٹا بھی اب پُھول ہے میرے یار کے بغیر


میں اکیلا ہی پھنسا ہوں ساحِل پے جُنید
اب ڈُوب کر بچنا بھی موت ہے یار کے بغیر

Download here.

میری زِندَگی میں غم کئی ہزار مِلتے ہیں


میری زِندَگی میں غم کئی ہزار مِلتے ہیں
بِکھرے ہوئے آنسُو بے شُمار مِلتے ہیں

میں نے اپنوں سے دھوکہ کھایا ہے جُنید
میری راتیں میرے دِن بےقرار مِلتے ہیں

بہت دیکھے ہیں ساتھ چھوڑ جانے والے میں نے
جو اپنا کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں غَمخُوار مِلتے ہیں

بے آسراء یُونہی نہیں بیٹھے ہیں ہم راہوں میں
جِن کو لُوٹا تھا اُن میں ہم سے کنگال مِلتے ہیں

اِس دُوری نے دِل بے حال کر رکھا ہے میرا
جُدائی سے عاشِق سَارے بیزار مِلتے ہیں

بِیچ راہوں میں یُونہی دَریا نہ بَہائے ہم نے
چِیر کر دیکھو دِل مرا اَپنوں کے زَخم ہزار مِلتے ہیں

ارے او مُسافِر ٹھہر جا کاہے کی جَلدی ہے تُجھ کو؟
اِدھر کریں ہلچل تو آگے راہَ مار مِلتے ہیں

یہ دِل کِس کا ہے کیوں سَرِ بازار بِکتا ہے؟
اِدھر دیکھو میرے دِل کے ٹُکڑے ہزار مِلتے ہیں

یُونہی غم سے یاری نہیں لگا رکھی ہے جُنید
اِس رِشتے میں چُھپے لاکھوں اَسرار مِلتے ہیں

Download here.

غمگیں تو ہو چُکے تھے ہم جاتے جاتے


غمگیں تو ہو چُکے تھے ہم جاتے جاتے
آنکھ بھی ہو گئی پُرنَم جاتے جاتے

فصلِ بہار کاٹ ہی لیتا میں کاٹ نہ سکا
کہ خزاں دے گئی تِھی غم جاتے جاتے

ڈھول پِیٹا تھا تیری شہنائی کا میں نے
اُس کے دُکھ نہ ہُوئے کم جاتے جاتے

چلا تھا کب سے درِّ یار کی جانِب میں مگر
پہنچا ہی تھا کہ چل بسا دَم جاتے جاتے

قبر تو کھود رکھِی تھی غموں نے کب سے
اور وہ بِھی کر گیا ضَم جاتے جاتے

مُشکِل میں مُجھ سا ہی پھنسا رہ گیا
وہ بھی تنہا چھوڑ گیا ہمدم جاتے جاتے

غم کا ناسُور تو پا لِیا تھا کب کا
وہ کر کہ نہ گیا مرہم جاتے جاتے

آنکھوں سے آنسُو بہاتا رہ گیا جُنید
وہ بِھی دے گیا تھا غم جاتے جاتے

Download here.