حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

جب سے تیرے شہر میں ہم خُوار ہو گئے


جب سے تیرے شہر میں ہم خُوار ہو گئے
ہر مَنزِل پے چَرچَے ہزار ہو گئے

جب شوقِ مُحَبت مرا اِنْتَہا کو پَہنچا
حَیاتِ جاں فِزا ہو گئے گُلزار ہو گئے

بُلندِی پے رہ کر بھی میں پارا ہو گیا
اب منزِلوں سے غم میں بیزار ہو گئے

پاراِ دِل کو دیکھ اِس پر نام کُندہ ہے
اب تو ہر ٹُکڑے پے نام بے شُمار ہو گئے

چاند ستارے دیکھ کر مُجھے ایسا لگتا ہے
ہر اِک پر تِرے کرم کے انوار ہو گئے

اب مُجھے کیا کہنا ہے اور اُس سے
ہر سُو میرے کہنے لا شُمار ہو گئے

ترسا کرتا تھا کبھی وہ مُسکرانے کو جُنید
اب تو تَسلَیم و رضا کی وہ ٹھار ہو گئے

جو گُم گیا تھا کبھِی صحراوں میں جُنید
اب ہر طرف ہی اُس کے مَزار ہو گئے

عَرصَہِ دَراز کے بعد غَمْ ہُوا باکمال جاتا ہے


عَرصَہِ دَراز کے بعد غَمْ ہُوا باکمال جاتا ہے
لمحے ویران ہُوئے دِل پُرملال جاتا ہے

سُن لیا تیری جانِب سے تُو بھی روئے جاتا ہے
اب میرا کیا قُصّور جو آپ بے حال جاتا ہے

نہ بَرکھا بَرْسِی تھی بادِلوں سے قَطْرے لے کر
کیوں آنکھوں سے بہتا ساگر بے مِثال جاتا ہے

مُجھے ویران راستوں میں کوئی تو یاد کرتا ہے
آ دیکھ دِل میں طُوفانِ یاد لازوال جاتا ہے

اب آنسُو نہیں آنکھ میں میں کیسے روؤں
اب نہ روؤں کہ جِگر کا خُونِ سامان جاتا ہے

تُو تو خاکِی سے کب کا ہستِی ہو گیا ہے
مُجھے کیا غم کہ وُجُودِ پامال جاتا ہے

تُجھ سے کہنے آئے تھے کہانِی دِل کی
جو کُچھ سُنایا تھا مُجھ سا بے زُبان جاتا ہے

شہر یار کا رستہ میں پُوچھتا پھرتا تھا کبھی
اب دِل کو کہتا ہُوں وہاں کنگال جاتا ہے

اب دِل کو یُوں مَنانا شُروع کر دِیا ہے جُنید
جو دِل میں رہ کر دُور ہُو با وبال جاتا ہے