حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

چل کے وہ اِدھر بیچ مکان آئے ہے


چل کے وہ اِدھر بیچ مکان آئے ہے
ہائے او ظالِم کیا داد کمائے ہے

مُجھے پُھونک کر بھٹی میں خاک کر دیا
اب تُجھ کو مرے مَزار پر قرار آئے ہے

آؤ تُمہاری خاطِر ہی آنکھیں بچائے ہیں
مُجھے آرام دو سب کو جَلال آئے ہے

سُورج بھی سامِنے تیرے پِھیکا پڑ گیا
تُجھے دیکھ کر چاند کو بھی داغ آئے ہے

کُچھ دیر قیام کیے تھے رِیاضَت تھی بہت
مت جا او نازُک تُجھے آرام آئے ہے

ساتھ چھوڑ کر مرا یُوں نہ جاؤ پیارے
مرے دُشمنوں کو مرا خیال آئے ہے

اچھا کیے ہو یار مُجھ سے پردہ کیے ہو
لوگوں میں چاند سُورج اور غُرور آئے ہے

دیکھ لیتے ہیں جُنید اُن کا آنا کیسا رہے گا
یہ زِندگی تو گُرز گئی مُجھ کو موت آئے ہے

Download here.

مُجھے ستائے بغیر تیرا دِن نہیں گُزرتا ہے


مُجھے ستائے بغیر تیرا دِن نہیں گُزرتا ہے
خُون رُولا کر مُجھے تیرا دِل نہیں مچلتا ہے

میں تیری یاد میں اپنے صُبح و شام کھوئے ہوں
تُو کیسا ہے دُوجا جو یار ہو کر ہنستا ہے

غم سے دوچار ہوئے یہ دِن بیت گیا ہے
اور ترے چہرے پے خُوشی کا تمغہ چمکتا ہے

ہائے او بے رحم مُجھے دُور بیٹھے رُولاتا ہے
تو سوچ تو سہی میرے دِل پر کیا گُزرتا ہے

سجائے اشکوں سے چہرہ تُجھے یاد کرتا ہوں
اور تُو مری یادوں سے چُپکے چُپکے نِکلتا ہے

تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں جب خُون روتا ہوں
اور دُور ہونا ہر پل مُجھے بے چین کرتا ہے

لمحے تو ہاتھوں کی میل ہو چُکے ہیں سارے
جب سے تیرا دُور ہونا مُجھے غمگین کرتا ہے

سنبھل سنبھل کر میں قدم آگ میں رکھتا ہوں
تُو ہے کے اپنے غم میں مُجھے جَلائے رکھتا ہے

ہوش سے کُچھ تو اے جُنید کام لے لو
وہ دُور رکھ کر خُود سے تُجھے بیکار رکھتا ہے

Download here.