حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

اُٹھا بُلندیوں پے یہ گُمنام کون ہے


اُٹھا بُلندیوں پے یہ گُمنام کون ہے
خاک بِھی تَرسَے ہے یہ انجان کون ہے

جِس کِسی کو دیکھا کیسا خیال آیا
یہ ہستِی کِس کی ہے مہمان کون ہے

ہر بُلندِی پے پہنچا، آسماں پے دیکھا
میں بُھولا ہی رہا میزبان کون ہے

جو ہستِی میں بستا جو خُود میں ہے رہتا
کِیوں اُلجھن ہے چھائی ہم نام کون ہے

یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے
خاکِی کہاں ہیں یہ اِنْسَان کون ہے

کیا لُٹ چُکا تھا اور کیا رہ گیا ہے
اِک لفظوں سے جِیتا بے زُبان کون ہے

اب جو مرے دِل میں رہنے لگا ہے جُنید
وہ خاکِی نہیں تو بے نِشان کون ہے