حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے


ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے
رو رو کر اَشکوں کا دریا بہا رکھا ہے

ڈُبائے خُودی کو غم میں روئے ہوں پیارے
جبھی یہ حال عاشقوں سا بنا رکھا ہے

اُجڑ گئے آشیانے جن کو سجایا تھا میں نے
اب اُن راہوں کو آہوں سے سجا رکھا ہے

زیادتیِ قُربت مُجھ کو مہنگی پڑ گئی جُنید
اب سارا ماحول سوگوار بنا رکھا ہے

میں اشکوں کو چُھپائے ہوں پردے میں جُنید
ڈھال اپنی میں نے لفظوں کو بنا رکھا ہے

آؤ چلتے ہیں راہ ماروں کے شہر میں جُنید
امن کے شہر میں ٹھکانہ اُجاڑ رکھا ہے

میں تلخ حقیقت سے آشنا ہوں جُنید
چھوڑ دو رونا آنسُوؤں میں کیا رکھا ہے

Download here.

وہ دِن بہت یاد آتا ہےمُجھ کو


وہ دِن بہت یاد آتا ہےمُجھ کو
جب بچھڑا تھا میں راہوں میں تُجھ سے


خُوب رو رو کر تنہائی میں آنسُو بہائے تھے
ہائے بے وفا وقت مُجھے جُدا کر دیا تُجھ سے


آج بھی اُن راہوں میں سسکیاں سی گُونجتی ہیں
جن راہوں میں رو رو کر اِلتجائیں کی تھیں تُجھ سے


دِل ٹُوٹ گیا میرا اور آنکھ بھی بہہ نِکلی
میرے اپنوں نے مُجھے جُدا کر دیا تُجھ سے


اب تو کام ہی صرف رو رو کر آنسُو بہانا ہے
وہ لمحے کتنے انمول تھے جب قریب تھے تُجھ سے


بے آسرا ہوئے کُھلے آسماں تلے رو رہا ہوں
تُو مری زندگی ہے میں قائم ہوں تُجھ سے


پیغام یہ سُنائے ہے صبا، میرا یار رو رہا ہے
مت رو پیارے میں مانگتا ہوں آنسُو تُجھ سے


پونچ ڈالو آنسُوؤں کو جُدائی بھی لمبی ہے
تُو جو چاہے کر جیسا کر گُزارِش ہے تُجھ سے

کیوں روتے ہو پیارے تُجھ پے آنسُو نہیں جچتے
ہم ہیں نہ رونے کے لیے مُسکُرائیں گے تُجھ سے


اے پیارے تُو نے تو رونا بھی سیکھا نہیں ہے
اور مُسکُرانا بھی اب تو بُھول چُکے ہیں مُجھ سے


یہ حال کیسا ہے جُنید زندگی موت ایک ہی لگتی ہے
بیہوش ہوئے ہیں عاشِق ہوش میں ہیں مُجھ سے


مان جاؤ پیارے کب تک یُونہی آنسُو بہاؤ گے؟
تُم رو نہیں سکتے ہو کیسے مُسکُرائیں گے مُجھ سے


کب تک رو رو کر تُم یُونہی دریا بہاؤ گے
ہائے ڈُوب جائیں گے پیارے اِس دریا میں مُجھ سے


ترے آنسُو دیکھ کے مرا دِل خُون روتا ہے
جیسے اُن کی مرضی بے زُباں ہیں مُجھ سے


رو رو کر پیارے اپنی آنکھیں سُجا دی تُو نے
یہ صدمہ بہت بڑا ہے نہیں سہہ سکیں گے مُجھ سے


میں مُسکُرانا بھُول گیا تُو بھی روئے جاتا ہے
مت غم دے اور پیارے یہ اِلتجا ہے تُجھ سے


میں یار کو دیکھنا بالکُل بھی اچھا نہیں سمجھتا
میں دُور ہوں اُن سے وہ چُھپائے ہیں مُجھ سے


حُکم یہ یار کا ہے یار میرا پردہ کیے ہے
بِن دیکھے تُو قائم ہے بِن دیکھے ہیں مُجھ سے


لاکھوں اوصاف ہیں اُن میں وہ ہستی ہیں جُنید
یار کہتے ہیں بیٹا اُس کو مانگتے بھکاری ہیں مُجھ سے


Download here.