حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے


ظلم یہ کیسا جُدائی نے مچا رکھا ہے
رو رو کر اَشکوں کا دریا بہا رکھا ہے

ڈُبائے خُودی کو غم میں روئے ہوں پیارے
جبھی یہ حال عاشقوں سا بنا رکھا ہے

اُجڑ گئے آشیانے جن کو سجایا تھا میں نے
اب اُن راہوں کو آہوں سے سجا رکھا ہے

زیادتیِ قُربت مُجھ کو مہنگی پڑ گئی جُنید
اب سارا ماحول سوگوار بنا رکھا ہے

میں اشکوں کو چُھپائے ہوں پردے میں جُنید
ڈھال اپنی میں نے لفظوں کو بنا رکھا ہے

آؤ چلتے ہیں راہ ماروں کے شہر میں جُنید
امن کے شہر میں ٹھکانہ اُجاڑ رکھا ہے

میں تلخ حقیقت سے آشنا ہوں جُنید
چھوڑ دو رونا آنسُوؤں میں کیا رکھا ہے

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ