حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے


جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے
اُس وقت سے میں نے ہنسنا چھوڑ دِیا ہے

پہلے جب آہینہ تکتا کُچھ اور ہی دِیکھا کرتا تھا
جب سے خُود کو دیکھا ہے آئینہ توڑ دِیا ہے

پہلے سب کُچھ ہی میرا تھا کہ میرے پاس تُو تھا
جب سے بچھڑا ہے تُو سب نے مِلنا چھوڑ دِیا ہے

شبِ غفلت میں بیداری گِراں تھی جانی میں نے
جب سے جاگا ہوں تب سے سونا چھوڑ دِیا ہے

اِیک وقت وہ تھا کہ پَید پَنچِھیوں کا آستانہ تھا
جب سے اُجڑا ہے پید پنچِھیوں نے آنا چھوڑ دِیا ہے

سوچا تھا تُجھے لیئے اُس گگن میں اُڑ جاؤں گا
جب سے پنجرہ دیکھا ہے میں نے اُڑنا چھوڑ دِیا ہے

اندھیری راتوں میں پہلے تو کوئی راہنُما تھا جُنید
جب سے اکیلا ہوا ہوں اُن راہوں میں جانا چھوڑ دِیا ہے

Download here.

اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے


اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے
مل کر بچھڑنا مُجھے یاد آتا ہے

ٹھنڈی ہوا کی مانند تیری باتیں
اور اپنا سرد ہونا یاد آتا ہے

شوخ رنگوں میں بھیگا سا وہ آنچل
اور تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

مُشکِلوں کے دریا میں ڈُوبنا میرا
بچ نِکلنے میں سہارا یاد آتا ہے

تُو بچھڑ گیا کب کا مگر ایسا لگتا ہے
تُو ابھی بچھڑا ہے جیسے یاد آتا ہے

میں تنکا تھا تُو نے مُجھ کو ہیرا سمجھا
تیرا وہ تعریف کرنا یاد آتا ہے

تو جب گھائِل ہوتا تو رویا کرتا تھا
مُجھے تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

میں بِکھر کر آتا تیری پناہ پاتا
تیرا وہ دِلاسہ دینا یاد آتا ہے

تری آنکھو‌ں سے بہتے ساگر کو سمیٹنا
اور پلکوں پر سجانا یاد آتا ہے

عرصہ ہو چلا جُنید وہ دُور ہو چُکا ہے
لگتا ہے بچھڑا ہو ابھی یاد آتا ہے

Download here.

جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے


جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے
ہر سُو تیری آمد کا چرچا کرایا ہے

تیری خاطِر خُوشیوں سے مُنہ موڑ رکھا ہے
تیرے لیے ہی خُود کو میں نے آگ میں جَلایا ہے

قسم خُدا کی تُجھ سا حَسِیں مری آنکھوں نے نہ دیکھا ہے
جب سے تیرا جلوہ میری آنکھوں میں سمایا ہے

کیا بسے گا کوئی گُل و زار آنکھوں میں
تیرے دَرّ کا خَار میں نے آنکھوں میں سجایا ہے

کاہے کو مُشکِل میں میں تنہا ہو جاوں گا
اُمید سے ہوں ترا سنبھالا کام آیا ہے

کیوں نہ تیرے آنے سے خُوشیاں مناؤں میں
ہر ذَرّے نے ترے آنے کا جشن منایا ہے

جِس خَار کو چُھوا تُو نے پُھول بنا دِیا اُس کو
اور تُو نے آتے جاتے مُردہ جِلایا ہے

غم کے بادَل چَھٹ گئے روشنی ہُوئی چار سُو
یہ اُجالا ترے چہرے کی صُبح نے پھیلایا ہے

تیری آمد سے ہر غم خُوشی میں بدل گیا میرا
مگر تیری یاد نے مُجھے زار و زار رُلایا ہے

خیر سے آئیں وہ دِن زِندگی میں میری
میں کہوں دَرّ کا مُجھے خاکروب بنایا ہے

تُجھ سے نہ مانگیں تو کِدھر کو جائیں ہم
کیوں دَرّ دَرّ پِھریں سَگ یہاں دانہ پانی پایا ہے

تیرا کرم ہے پیارے جو مقام میں نے پایا ہے
ورنہ مُنہ کہاں جُنید کا جو لفظوں نے دِکھلایا ہے

Download here.