حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے


جب سے تیری یاد نے آنا چھوڑ دیا ہے
اُس وقت سے میں نے ہنسنا چھوڑ دِیا ہے

پہلے جب آہینہ تکتا کُچھ اور ہی دِیکھا کرتا تھا
جب سے خُود کو دیکھا ہے آئینہ توڑ دِیا ہے

پہلے سب کُچھ ہی میرا تھا کہ میرے پاس تُو تھا
جب سے بچھڑا ہے تُو سب نے مِلنا چھوڑ دِیا ہے

شبِ غفلت میں بیداری گِراں تھی جانی میں نے
جب سے جاگا ہوں تب سے سونا چھوڑ دِیا ہے

اِیک وقت وہ تھا کہ پَید پَنچِھیوں کا آستانہ تھا
جب سے اُجڑا ہے پید پنچِھیوں نے آنا چھوڑ دِیا ہے

سوچا تھا تُجھے لیئے اُس گگن میں اُڑ جاؤں گا
جب سے پنجرہ دیکھا ہے میں نے اُڑنا چھوڑ دِیا ہے

اندھیری راتوں میں پہلے تو کوئی راہنُما تھا جُنید
جب سے اکیلا ہوا ہوں اُن راہوں میں جانا چھوڑ دِیا ہے

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ