حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے


جشن تیری یادوں کے آنے کا منایا ہے
ہر سُو تیری آمد کا چرچا کرایا ہے

تیری خاطِر خُوشیوں سے مُنہ موڑ رکھا ہے
تیرے لیے ہی خُود کو میں نے آگ میں جَلایا ہے

قسم خُدا کی تُجھ سا حَسِیں مری آنکھوں نے نہ دیکھا ہے
جب سے تیرا جلوہ میری آنکھوں میں سمایا ہے

کیا بسے گا کوئی گُل و زار آنکھوں میں
تیرے دَرّ کا خَار میں نے آنکھوں میں سجایا ہے

کاہے کو مُشکِل میں میں تنہا ہو جاوں گا
اُمید سے ہوں ترا سنبھالا کام آیا ہے

کیوں نہ تیرے آنے سے خُوشیاں مناؤں میں
ہر ذَرّے نے ترے آنے کا جشن منایا ہے

جِس خَار کو چُھوا تُو نے پُھول بنا دِیا اُس کو
اور تُو نے آتے جاتے مُردہ جِلایا ہے

غم کے بادَل چَھٹ گئے روشنی ہُوئی چار سُو
یہ اُجالا ترے چہرے کی صُبح نے پھیلایا ہے

تیری آمد سے ہر غم خُوشی میں بدل گیا میرا
مگر تیری یاد نے مُجھے زار و زار رُلایا ہے

خیر سے آئیں وہ دِن زِندگی میں میری
میں کہوں دَرّ کا مُجھے خاکروب بنایا ہے

تُجھ سے نہ مانگیں تو کِدھر کو جائیں ہم
کیوں دَرّ دَرّ پِھریں سَگ یہاں دانہ پانی پایا ہے

تیرا کرم ہے پیارے جو مقام میں نے پایا ہے
ورنہ مُنہ کہاں جُنید کا جو لفظوں نے دِکھلایا ہے

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ