حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

وہ قطرہ جو مری آنکھوں سے بہا کرتا ہے


وہ قطرہ جو مری آنکھوں سے بہا کرتا ہے
تری دُوری کے غم کو اور زیادہ کرتا ہے

تمنا کیے ہوں میں تیرا چہرہ کِھلاؤں گا
مگر اِدھر تیرا آنسُو اُدھر میرا گرا کرتا ہے

بجلی جو کڑکی تھی تُجھے ساتھ نہ پایا
وہ خیال تھا جِس میں تُو ساتھ دِکھا کرتا ہے

بِکھر گئے وہ لمحے جن میں آرزُو سجائی تھی
اب آہوں کا زخم مرے دِل سے رَسا کرتا ہے

مُسکُرایا بھی دِل سے میں مگر مُسکُرایا نہ گیا
ترا غم مری خُوشیوں پے حاوی رہا کرتا ہے

تُجھ سے مِلنا مُجھ کو محبوب نہیں ہے پیارے
کہ دُور ہو کر پاس ہونا بھی جُدائی کرتا ہے

صُورت آئینے میں دیکھی تو کُچھ اور ہی دیکھا تھا
یہ وہ چہرہ ہے جس کو یار تکا کرتا ہے

غم کی حالت میں تنہائی کاٹے ہے مُجھ کو
ہر آہ سے دِل مرا حَلق میں لگا کرتا ہے

میں غمگین ہوں آج تُو بہت دُور ہے مُجھ سے
یہ کیسا ہے اپنا جو غیر دِکھا کرتا ہے

تری آنکھوں میں اَکثر آنسو رہا کرتے ہیں
اور اِدھر ترا رونا مُجھ کو غمگین کرتا ہے

مُجھے کوئی غم ہو تو مُجھ پے آہ نہیں جچتی
ترا دامن ہر وقت میرے لیے کُھلا کرتا ہے

توصل اُن کے ترے قدموں میں مُجھے موت آئے گی
یہی خُواب مری سانسوں کو رواں کیا کرتا ہے

میں آفسانوں میں خُود کو گنوائے ہوئے ہوں جُنید
کہ لفظ لفظ مرا آنسُوؤں سے سجا کرتا ہے

Download here:

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ