حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

فلک پے چرچے ہیں بڑے یاروں کے


فلک پے چرچے ہیں بڑے یاروں کے
کیا ہُوا رُتبہ بول بالے پیاروں کے

سزاِ غم پائِی میں نے کیسی مُحبت میں
جرمِ اُلفت میں مِلا رُتبہ غم کے ماروں میں

تڑپ کر غم سے مولا اب دُھائِی ہے دُھائِی
جانِ تجلٰی غم مِٹا اپنے عِصّیاں شُعاروں کے

ترِی کریمی وہ شان کہ بس سُن لیا میں نے
مدد کو آ ہو ئے اِستغاثے غم کے ماروں کے

جاں تڑپے ہے مری جاں مُرغِ بِسمِل جیسی
دُور ہو غم سارے اے شہنشاہ غم گُساروں کے

کِیوں اب نہ پُکارُوں میں اُس کریم کو جُنید
شاں ہے اعلٰی اُن کی رُتبے اعلٰی پیاروں کے

کیا بات رَضا تیری جو یہ کہہ دیا جُنید
جِن کا بندہ ہُوں میں بول بالے سرکاروں کے

جب سے تیرے شہر میں ہم خُوار ہو گئے


جب سے تیرے شہر میں ہم خُوار ہو گئے
ہر مَنزِل پے چَرچَے ہزار ہو گئے

جب شوقِ مُحَبت مرا اِنْتَہا کو پَہنچا
حَیاتِ جاں فِزا ہو گئے گُلزار ہو گئے

بُلندِی پے رہ کر بھی میں پارا ہو گیا
اب منزِلوں سے غم میں بیزار ہو گئے

پاراِ دِل کو دیکھ اِس پر نام کُندہ ہے
اب تو ہر ٹُکڑے پے نام بے شُمار ہو گئے

چاند ستارے دیکھ کر مُجھے ایسا لگتا ہے
ہر اِک پر تِرے کرم کے انوار ہو گئے

اب مُجھے کیا کہنا ہے اور اُس سے
ہر سُو میرے کہنے لا شُمار ہو گئے

ترسا کرتا تھا کبھی وہ مُسکرانے کو جُنید
اب تو تَسلَیم و رضا کی وہ ٹھار ہو گئے

جو گُم گیا تھا کبھِی صحراوں میں جُنید
اب ہر طرف ہی اُس کے مَزار ہو گئے

عَرصَہِ دَراز کے بعد غَمْ ہُوا باکمال جاتا ہے


عَرصَہِ دَراز کے بعد غَمْ ہُوا باکمال جاتا ہے
لمحے ویران ہُوئے دِل پُرملال جاتا ہے

سُن لیا تیری جانِب سے تُو بھی روئے جاتا ہے
اب میرا کیا قُصّور جو آپ بے حال جاتا ہے

نہ بَرکھا بَرْسِی تھی بادِلوں سے قَطْرے لے کر
کیوں آنکھوں سے بہتا ساگر بے مِثال جاتا ہے

مُجھے ویران راستوں میں کوئی تو یاد کرتا ہے
آ دیکھ دِل میں طُوفانِ یاد لازوال جاتا ہے

اب آنسُو نہیں آنکھ میں میں کیسے روؤں
اب نہ روؤں کہ جِگر کا خُونِ سامان جاتا ہے

تُو تو خاکِی سے کب کا ہستِی ہو گیا ہے
مُجھے کیا غم کہ وُجُودِ پامال جاتا ہے

تُجھ سے کہنے آئے تھے کہانِی دِل کی
جو کُچھ سُنایا تھا مُجھ سا بے زُبان جاتا ہے

شہر یار کا رستہ میں پُوچھتا پھرتا تھا کبھی
اب دِل کو کہتا ہُوں وہاں کنگال جاتا ہے

اب دِل کو یُوں مَنانا شُروع کر دِیا ہے جُنید
جو دِل میں رہ کر دُور ہُو با وبال جاتا ہے

اُٹھا بُلندیوں پے یہ گُمنام کون ہے


اُٹھا بُلندیوں پے یہ گُمنام کون ہے
خاک بِھی تَرسَے ہے یہ انجان کون ہے

جِس کِسی کو دیکھا کیسا خیال آیا
یہ ہستِی کِس کی ہے مہمان کون ہے

ہر بُلندِی پے پہنچا، آسماں پے دیکھا
میں بُھولا ہی رہا میزبان کون ہے

جو ہستِی میں بستا جو خُود میں ہے رہتا
کِیوں اُلجھن ہے چھائی ہم نام کون ہے

یہ کیا ہو رہا ہے یہ کیا ہو رہا ہے
خاکِی کہاں ہیں یہ اِنْسَان کون ہے

کیا لُٹ چُکا تھا اور کیا رہ گیا ہے
اِک لفظوں سے جِیتا بے زُبان کون ہے

اب جو مرے دِل میں رہنے لگا ہے جُنید
وہ خاکِی نہیں تو بے نِشان کون ہے

کیا کشمکش سِی چھائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


کیا کشمکش سِی چھائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں
کِس اِنقلاب کی صَدا پائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


آو جَلاتے ہیں چَراغ جُنُون کی آتِش سے
وہ بھڑکے گِی آگ جو لگائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں

یُوں گُم سُم سے خُود میں تیرے سامنے آئے ہیں
یہ کیسی اُلجھن بنائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


جاں بر سِی زخمی یہ خُودِی کِس مرتبے پے پہنچی
کیا صدا وہاں گُنگائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


کیا کہہ گئے تھے وہ اِس حالتِ تَوَاجَدْ میں
کہ دِن میں رات دِکھائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


میں دِل یہ اپنا بے حال سا لیے رہ گیا ہوں
کیا گُفتگو رچائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں


جا بیچ دے خُود کو کوڑیوں کے بَھّاو جُنید
کیا انمول قیمت لگائی ہے تُجھ میں اور مُجھ میں

نقشِ خیالِی دِل میں سجا رکھا کیسا


نقشِ خیالِی دِل میں سجا رکھا کیسا
دل کے گھر میں بستر لگا رکھا کیسا


یُوں تو خُوار پِھرتے ہیں غم میں کب سے
تو شہرِ اَمن میں ٹِھکانا بنا رکھا کیسا


نہ اُلفَت راس آئی مُجھے ایک دور میں
اب ہر سُو یار کا چرچا جَگا رکھا کیسا


آنکھوں کی جِھیل کے پانِی پر عکس چھایا
کیوں خُود کو اُس میں ڈُوبا رکھا کیسا


دِل کی دُنیا اُس کے جانے سے ویران ہو گئی
تو اب سوگ میں خُوشی کو بچا رکھا کیسا


اِک لمحے تو ذَرّا یہ سوچ لو نا جُنید
کیوں خُود میں نہ خُود بتا رکھا کیسا

پُکار دیکھ تُو ذرا اُس پار آسمان میں


پُکار دیکھ تُو ذرا اُس پار آسمان میں
پنچھی اُڑ چُلے اُس اُونچے بیابان میں

منزل کو ڈُھونڈُوں جب تک خُودِی سے دُور ہُوں
جو جان گئے پامال ہُوئے اُس لامَکان میں

نہ برستا رہ یُوں بارش کے قطروں کی طرح
کہ مٹ گئے سارے اُس شِدَّتَ طُغیان میں

کر وفا اُن سے جو جانانِ جاناں ایمان کے
وہ جیت چلے بازی اور پہنچے اُس جہان میں

کیا شک کی نِگاہ سے دیکھا تُو نے ایک نظر
کہ ڈُوب گئے سارے اپنے فَہم و گُمان میں

پڑ جائے گی عادت اب تو اُس یار کی جُنید
جو رہ گئے صرف اُجڑے گُلِستَان میں

قُربت میں حاہِل دُوری انجام رہ گئی


قُربت میں حاہِل دُوری انجام رہ گئی
قِسمت نہ رنگ لائی زِندگی سُنسان رہ گئی


شام و سحر کو تیرے آنگن میں تڑپتے پایا میں نے
یہ قتل کیسا کیا کہ جاتے ہوئے جان رہ گئی


کب کے مر مِٹے ہوتے کب کے خاک ہُوئے ہوتے
اِسی شش و پنج میں گِھرے کہ میری آن رہ گئی


پیٹا تھا ڈنکا تیری مُسکُراہٹوں نے کب کا
یہ کیسی کرنی تھی کہ لُٹی شان رہ گئی


کیسی یہ مُسکُرانے کی آواز سُنی تھی میں نے
جو مرے دِل کے راستوں میں ویران رہ گئی


دستِ کرم نے لاج رکھی تھی یاروں میں میری
ورنہ تو کب کی لُٹی میری شان رہ گئی


میرے قلم کو اِک پَل بھی قَرار نہ آیا ہے
کہ آنکھوں میں میری سِیاہی بے نام رہ گئی


کیا سودا کیا تھا مہنگا نہ پڑا بازارِ یار میں
دِل چوری ہُوا اور زِندگی بے دام رہ گئی


جلوہِ یار کی مستی چھائی ایسی کے سب کُچھ فنا ہو گیا
ہر ساقی گُمنام ہوا ہر سُرائی بے جام رہ گئی


شہرِ یار کا رستہ پُوچھا تو سب کو خاموش پایا
کہ جِس کی قِسمت لے گئی وہاں بدنام رہ گئی


کیا لمحے تھے وہ جِن میں خُودی انجان ہو گئی
جِسم تو کب کا گیا اور میں بھی پشیمان رہ گئی


صبر سے رستہ نہ طے کیا تھا دَرِّ یار کا جُنید
مَنزِل دُور تھی خُودی سیخ کباب رہ گئی


Download here.

اِس سے پہلے کے میرے لَمحے وِیران ہو جائیں


اِس سے پہلے کے میرے لَمحے وِیران ہو جائیں
تو کیوں نہ وہ وقت آنے سے پہلے انجان ہو جائیں

تیری دُوری میں یہ حال ہے میں اپنا آپ گنوائے ہوں
تو جو پاس آئے تو نہ جانے بے جان ہو جائیں

خُوشی سے کِھلتے چہرے کو اَفسُردہ کر دیا تُونے
کَل کہیں سُوہانے پل نہ میرے گُمنام ہو جائیں

حال ایسا ہو چُکا میرا چہرہ بے قرار دِکھتا ہے
کل کہیں تیری یادیں نہ مرنے کا سامان ہو جائیں

سبز باغ میں پُھول کِھلتے ہیں دِکھتے ہیں ہر طرف
تیرے آتے ہی کہیں گُل نہ سارے بے جان ہو جائیں

آج خُود سے دُور رکھے مُجھے پاگل بنا رکھا ہے
کہیں ایسا نہ ہو کل میرے اپنے انجان ہو جائیں

میرے سُونے رَاستوں میں اپنی صَدا لگائے رکھنا
بُھول نہ جانا کہیں راستے نہ میرے ویران ہو جائیں

تری یادوں کے بغیر میں نے جِینا چَھوڑ دیا کب کا
بُھول جاؤں کیسے کہیں ہم سے نہ اِنسان ہو جائیں

رَواء تو کب سے کیا ہے میں نے ترے آنگن میں رونا
کاش ایسا ہو کہ تیرے دِل کے مہمان ہو جائیں

توفیق سے بندھن کا لَفظ مُثبت ہونا ہے ایک دِن
کل وہ کہیں گے ہم سے دونوں اِک جان ہو جائیں

مُجھے اپنی یادوں میں ایسا گمادو ایک دِن
تیری یادیں ہی مرے جینے کا سامان ہو جائیں

اظہارِ دِل کو ہاں سُنے عرصہ گُزر گیا ہے
کُچھ ایسا کہہ دو کہ اَلفاظ یک جان ہو جائیں

اِسی اُمید میں میں پَل پَل جیا کرتا ہوں جُنید
کاش تیری گلی میں قدم میرے دو دو چار ہو جائیں

تمنا کو کب سے مُثبت سمجھا ہے جُنید میں نے
کُچھ ایسا ہو کہ اِظہار کی اُمیدیں اُس پار ہو جائیں

Download here.

حالِ دِل اب کیا لِکھیں ہم پیارے


حالِ دِل اب کیا لِکھیں ہم پیارے
تیرے غم میں جینا زندگی ہے پیارے


جل جل کر میں کباب ہوئے ہوں
کیسی یہ دِل کی لِگی ہے پیارے


باندھ رکھ مُجھے اپنے پاؤں سے پیارے
میرا دِل اُچھل کر باہر آئے ہے پیارے


دھک سے دِل حلق میں آ گیا میرا
کاہے کو جُدائی نام سُنائے ہے پیارے


میرے بُجھتے دِل کی شمعَ جلادو
تُو سُورج ہے میرا تُو چاند ہے پیارے


آنکھ سے ٹپ ٹپ آنسُو بہتے ہیں میرے
آگیا وقت جُدائی کا آگیا ہے پیارے


میں جِدھر دیکھوں اُدھر تُجھی کو پاؤں
اِس آنکھ میں سجی ہے تری تصویر پیارے


یُونہی غمزُدہ نہیں کیے ہے جُدائی ہم کو
تیری یاد میں گنوائے ہوں میں آپ پیارے


میں قائم ہوں تُجھ سے وہی اُمید ہیں میری جُنید
اب کیا بتائیں ہم سب جانتے ہو تُم پیارے


Download here.