حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

اِس سے پہلے کے میرے لَمحے وِیران ہو جائیں


اِس سے پہلے کے میرے لَمحے وِیران ہو جائیں
تو کیوں نہ وہ وقت آنے سے پہلے انجان ہو جائیں

تیری دُوری میں یہ حال ہے میں اپنا آپ گنوائے ہوں
تو جو پاس آئے تو نہ جانے بے جان ہو جائیں

خُوشی سے کِھلتے چہرے کو اَفسُردہ کر دیا تُونے
کَل کہیں سُوہانے پل نہ میرے گُمنام ہو جائیں

حال ایسا ہو چُکا میرا چہرہ بے قرار دِکھتا ہے
کل کہیں تیری یادیں نہ مرنے کا سامان ہو جائیں

سبز باغ میں پُھول کِھلتے ہیں دِکھتے ہیں ہر طرف
تیرے آتے ہی کہیں گُل نہ سارے بے جان ہو جائیں

آج خُود سے دُور رکھے مُجھے پاگل بنا رکھا ہے
کہیں ایسا نہ ہو کل میرے اپنے انجان ہو جائیں

میرے سُونے رَاستوں میں اپنی صَدا لگائے رکھنا
بُھول نہ جانا کہیں راستے نہ میرے ویران ہو جائیں

تری یادوں کے بغیر میں نے جِینا چَھوڑ دیا کب کا
بُھول جاؤں کیسے کہیں ہم سے نہ اِنسان ہو جائیں

رَواء تو کب سے کیا ہے میں نے ترے آنگن میں رونا
کاش ایسا ہو کہ تیرے دِل کے مہمان ہو جائیں

توفیق سے بندھن کا لَفظ مُثبت ہونا ہے ایک دِن
کل وہ کہیں گے ہم سے دونوں اِک جان ہو جائیں

مُجھے اپنی یادوں میں ایسا گمادو ایک دِن
تیری یادیں ہی مرے جینے کا سامان ہو جائیں

اظہارِ دِل کو ہاں سُنے عرصہ گُزر گیا ہے
کُچھ ایسا کہہ دو کہ اَلفاظ یک جان ہو جائیں

اِسی اُمید میں میں پَل پَل جیا کرتا ہوں جُنید
کاش تیری گلی میں قدم میرے دو دو چار ہو جائیں

تمنا کو کب سے مُثبت سمجھا ہے جُنید میں نے
کُچھ ایسا ہو کہ اِظہار کی اُمیدیں اُس پار ہو جائیں

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ