حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

قُربت میں حاہِل دُوری انجام رہ گئی


قُربت میں حاہِل دُوری انجام رہ گئی
قِسمت نہ رنگ لائی زِندگی سُنسان رہ گئی


شام و سحر کو تیرے آنگن میں تڑپتے پایا میں نے
یہ قتل کیسا کیا کہ جاتے ہوئے جان رہ گئی


کب کے مر مِٹے ہوتے کب کے خاک ہُوئے ہوتے
اِسی شش و پنج میں گِھرے کہ میری آن رہ گئی


پیٹا تھا ڈنکا تیری مُسکُراہٹوں نے کب کا
یہ کیسی کرنی تھی کہ لُٹی شان رہ گئی


کیسی یہ مُسکُرانے کی آواز سُنی تھی میں نے
جو مرے دِل کے راستوں میں ویران رہ گئی


دستِ کرم نے لاج رکھی تھی یاروں میں میری
ورنہ تو کب کی لُٹی میری شان رہ گئی


میرے قلم کو اِک پَل بھی قَرار نہ آیا ہے
کہ آنکھوں میں میری سِیاہی بے نام رہ گئی


کیا سودا کیا تھا مہنگا نہ پڑا بازارِ یار میں
دِل چوری ہُوا اور زِندگی بے دام رہ گئی


جلوہِ یار کی مستی چھائی ایسی کے سب کُچھ فنا ہو گیا
ہر ساقی گُمنام ہوا ہر سُرائی بے جام رہ گئی


شہرِ یار کا رستہ پُوچھا تو سب کو خاموش پایا
کہ جِس کی قِسمت لے گئی وہاں بدنام رہ گئی


کیا لمحے تھے وہ جِن میں خُودی انجان ہو گئی
جِسم تو کب کا گیا اور میں بھی پشیمان رہ گئی


صبر سے رستہ نہ طے کیا تھا دَرِّ یار کا جُنید
مَنزِل دُور تھی خُودی سیخ کباب رہ گئی


Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ