حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

پُکار دیکھ تُو ذرا اُس پار آسمان میں


پُکار دیکھ تُو ذرا اُس پار آسمان میں
پنچھی اُڑ چُلے اُس اُونچے بیابان میں

منزل کو ڈُھونڈُوں جب تک خُودِی سے دُور ہُوں
جو جان گئے پامال ہُوئے اُس لامَکان میں

نہ برستا رہ یُوں بارش کے قطروں کی طرح
کہ مٹ گئے سارے اُس شِدَّتَ طُغیان میں

کر وفا اُن سے جو جانانِ جاناں ایمان کے
وہ جیت چلے بازی اور پہنچے اُس جہان میں

کیا شک کی نِگاہ سے دیکھا تُو نے ایک نظر
کہ ڈُوب گئے سارے اپنے فَہم و گُمان میں

پڑ جائے گی عادت اب تو اُس یار کی جُنید
جو رہ گئے صرف اُجڑے گُلِستَان میں

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ