حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

عزت سے آئے ہے سُواری محبوب کی


عزت سے آئے ہے سُواری محبوب کی
عاشِق ہوئے ذلیل بھیڑ میں جا رہا ہے

تنہائی میں دُلہن رو رو کر مر گئی
جنازے کو دینے کاندھا دُولہا جا رہا ہے

ساری عُمر رو رو کر عاشِق تنہا مر گیا
اب ہنستے ہوئے یار کا جنازہ جا رہا ہے

یہ جگہ ہے کیسی اور میرا یار کہاں ہے؟
عاشِق کو کھائے غم چھوڑے جنازہ جا رہا ہے

کاہے کو عاشِق چل چل کر پاؤں تَھکاتے ہیں
اِدھر خَیالوں میں مِلنے میرا یار آ رہا ہے

عاشِق اندھا ہوئے بِیچ بازار گِر گیا ہے
لوگوں میری آنکھوں میں یار کا چہرہ آ رہا ہے

غَم سے آہ یُونہی نہیں کیے ہیں سارے
ہر ذَرّہ میرے یار کا پَیغام سُنا رہا ہے

تنہائی میں عاشِق اَشکوں سے مَحفِل سجائے ہے
ہائے یار قریب ہے عاشِق دُور جا رہا ہے

آنکھیں خُشک ہیں دونوں میرا دِل رو رہا ہے
دَکھتا ہے محبوب بار بار بِچھڑا جا رہا ہے

یُوں جلنا آگ میں اِک پل بھی چین نہ آئے
بے ہوش ہوئے یادوں میں زَمانہ جا رہا ہے

سَنبھلتا نہیں ہے دِل مرا حَلَق میں آ نِکلا
دَھم سے گرا وُجُود یہ جُنید جا رہا ہے

Download here.

عاجَز تو کب سے ہیں محبوب کے غم میں


عاجَز تو کب سے ہیں محبوب کے غم میں
اَشکوں کی صورت میں نتائج مِلتے ہیں

خِاک دریا میں ڈُوب کر میں آنسُو بہاؤں
میرے اَشکوں میں بہتے دریا مِلتے ہیں

میں اُن گلیوں میں تنہا پڑا ہوں جُنید
جہاں ایک جاتا ہے اور چار مِلتے ہیں

اک پل بھی کہاں دِل میں میں سُکون پاؤں
کہ سیخ کباب ہوئے وُجُود مِلتے ہیں

میری آنکھوں کو دید کی روشنی دے دو
کب سے ہوئے اَندھے ہوشیاروں میں مِلتے ہیں

یُونہی خُود کو لاکھ زَخم نہیں دیتے ہیں ہم
کہ راستے میں لاکھوں اپنے ہَمراز مِلتے ہیں

میں پیاسا ہوں کب سے تِشنگی نہیں بُجھتی
میرے اَندر جوش مارتے دریا ہزار مِلتے ہیں

میں کب سے آنکھیں اُنکی یاد میں سرد کیے ہوں
میرے آنسُوؤں میں بہتے دو جہان مِلتے ہیں

اِنہیں لَمحوں میں جیت کر ہارا ہوں جُنید
جِن لمحوں میں مُجھے میرے مَحبوب مِلتے ہیں

اَپنوں کا پیارا بھی ہو کر اَپنوں سے گھائَل ہوں
مُجھے سَتانے میں مرے اَپنوں کے نِشاں مِلتے ہیں

میں کیسے اِس راز کو مُنکشف کروں جُنید
کہ ہر جواب میں چُھپے لاکھوں اَسرار مِلتے ہیں

Download here.

وہ ساون جو میری آنکھوں میں آیا ہے


وہ ساون جو میری آنکھوں میں آیا ہے
بہہ بہہ کر میرے لمحوں کو سجایا ہے

ترے چہرے کو ڈُھونڈتی ہیں آنکھیں کب سے
تبھی اِس محفِل کو سوگوار بنایا ہے

دِلِ بِسمِل کی اب کون ہے جو دوا کرے گا
یہ زخم اُس تیر کا ہے جو یار نے چلایا ہے

سِسک سِسک کر زندگی کے لمحے تھمتے ہیں
کیسا ہے چاہنا تیرا جو آپ دے کر رُولایا ہے

میں ڈُوب چُکا ہوں اُس سمُندر میں جُنید
جو میرے یار نے اشکوں کا بہایا ہے

میری آنکھیں بھیگی ہیں آنسُو بے حِساب بہتے ہیں
تُو کِس قدر پیارا ہے جو یادوں میں سمایا ہے

تُجھے یاد کرتا ہوں تُو جانے ہے میں کون ہوں؟
ہاں وہی جِس نے غم میں اپنا آپ جلایا ہے

تُو ہنس رہا ہے کیسے تیرا دِل غم سے گھائل ہے
میں رو ریا تنہا تیری باتوں نے ستایا ہے

قدر تُو نے کی سب نے ٹُھکرا دیا تھا مُجھ کو
یہ دِل لگایا کیوں اُس سے جو آنکھوں میں سجایا ہے

میں اَشکوں میں اپنی قلم ڈُوبائے بیٹھا ہوں جُنید
اب غم یہ جا چُکے ہیں جب لفظوں کو نچایا ہے

تیرا دُور ہونا مُجھ سے مُجھے کھائے جاتا ہے
تُو کیسا ہے دُور رہتے گھر دَل میں مرے بنایا ہے

میں سب رکھے بھی خُودی سے مُفلِس ہو گیا ہوں
تیرے لیے میں نے دِل کا ہر ارماں لُٹایا ہے

کُچھ تو رحم کر لے چند لفظ بھیک دے دے
اُنہی لفظوں کی دینا جن میں اپنا مُجھے بتایا ہے

میں دوستوں میں رہ کر بھی تنہا ہو چُکا ہوں
کیسا ہے ساتھ تیرا جو یادوں نے دِکھلایا ہے

میں غم سے چُور ہوں تُجھے یاد کرتا ہوں
تُو نے ہر مُشکِل میں ساتھ میرا نِبھایا ہے

انجان نگر میں دُوجے لُوٹ سکے نہ مُجھ کو
یار تُو کیسا ہے جس نے خُودی پر لُٹوایا ہے

یہ غم سے بھرا افسانہ کیا لِکھ دیا ہے جُنید
جہاں سیدھا لگنا تھا وہاں اُلٹا ہی گِرایا ہے

Download here.