حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

فلک پے چرچے ہیں بڑے یاروں کے


فلک پے چرچے ہیں بڑے یاروں کے
کیا ہُوا رُتبہ بول بالے پیاروں کے

سزاِ غم پائِی میں نے کیسی مُحبت میں
جرمِ اُلفت میں مِلا رُتبہ غم کے ماروں میں

تڑپ کر غم سے مولا اب دُھائِی ہے دُھائِی
جانِ تجلٰی غم مِٹا اپنے عِصّیاں شُعاروں کے

ترِی کریمی وہ شان کہ بس سُن لیا میں نے
مدد کو آ ہو ئے اِستغاثے غم کے ماروں کے

جاں تڑپے ہے مری جاں مُرغِ بِسمِل جیسی
دُور ہو غم سارے اے شہنشاہ غم گُساروں کے

کِیوں اب نہ پُکارُوں میں اُس کریم کو جُنید
شاں ہے اعلٰی اُن کی رُتبے اعلٰی پیاروں کے

کیا بات رَضا تیری جو یہ کہہ دیا جُنید
جِن کا بندہ ہُوں میں بول بالے سرکاروں کے