حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے


اکثر تیرا مِلنا مُجھے یاد آتا ہے
مل کر بچھڑنا مُجھے یاد آتا ہے

ٹھنڈی ہوا کی مانند تیری باتیں
اور اپنا سرد ہونا یاد آتا ہے

شوخ رنگوں میں بھیگا سا وہ آنچل
اور تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

مُشکِلوں کے دریا میں ڈُوبنا میرا
بچ نِکلنے میں سہارا یاد آتا ہے

تُو بچھڑ گیا کب کا مگر ایسا لگتا ہے
تُو ابھی بچھڑا ہے جیسے یاد آتا ہے

میں تنکا تھا تُو نے مُجھ کو ہیرا سمجھا
تیرا وہ تعریف کرنا یاد آتا ہے

تو جب گھائِل ہوتا تو رویا کرتا تھا
مُجھے تیرا آنسُو بہانا یاد آتا ہے

میں بِکھر کر آتا تیری پناہ پاتا
تیرا وہ دِلاسہ دینا یاد آتا ہے

تری آنکھو‌ں سے بہتے ساگر کو سمیٹنا
اور پلکوں پر سجانا یاد آتا ہے

عرصہ ہو چلا جُنید وہ دُور ہو چُکا ہے
لگتا ہے بچھڑا ہو ابھی یاد آتا ہے

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ