حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

غمگیں تو ہو چُکے تھے ہم جاتے جاتے


غمگیں تو ہو چُکے تھے ہم جاتے جاتے
آنکھ بھی ہو گئی پُرنَم جاتے جاتے

فصلِ بہار کاٹ ہی لیتا میں کاٹ نہ سکا
کہ خزاں دے گئی تِھی غم جاتے جاتے

ڈھول پِیٹا تھا تیری شہنائی کا میں نے
اُس کے دُکھ نہ ہُوئے کم جاتے جاتے

چلا تھا کب سے درِّ یار کی جانِب میں مگر
پہنچا ہی تھا کہ چل بسا دَم جاتے جاتے

قبر تو کھود رکھِی تھی غموں نے کب سے
اور وہ بِھی کر گیا ضَم جاتے جاتے

مُشکِل میں مُجھ سا ہی پھنسا رہ گیا
وہ بھی تنہا چھوڑ گیا ہمدم جاتے جاتے

غم کا ناسُور تو پا لِیا تھا کب کا
وہ کر کہ نہ گیا مرہم جاتے جاتے

آنکھوں سے آنسُو بہاتا رہ گیا جُنید
وہ بِھی دے گیا تھا غم جاتے جاتے

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ