حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

میری زِندَگی میں غم کئی ہزار مِلتے ہیں


میری زِندَگی میں غم کئی ہزار مِلتے ہیں
بِکھرے ہوئے آنسُو بے شُمار مِلتے ہیں

میں نے اپنوں سے دھوکہ کھایا ہے جُنید
میری راتیں میرے دِن بےقرار مِلتے ہیں

بہت دیکھے ہیں ساتھ چھوڑ جانے والے میں نے
جو اپنا کہہ کر چھوڑ جاتے ہیں غَمخُوار مِلتے ہیں

بے آسراء یُونہی نہیں بیٹھے ہیں ہم راہوں میں
جِن کو لُوٹا تھا اُن میں ہم سے کنگال مِلتے ہیں

اِس دُوری نے دِل بے حال کر رکھا ہے میرا
جُدائی سے عاشِق سَارے بیزار مِلتے ہیں

بِیچ راہوں میں یُونہی دَریا نہ بَہائے ہم نے
چِیر کر دیکھو دِل مرا اَپنوں کے زَخم ہزار مِلتے ہیں

ارے او مُسافِر ٹھہر جا کاہے کی جَلدی ہے تُجھ کو؟
اِدھر کریں ہلچل تو آگے راہَ مار مِلتے ہیں

یہ دِل کِس کا ہے کیوں سَرِ بازار بِکتا ہے؟
اِدھر دیکھو میرے دِل کے ٹُکڑے ہزار مِلتے ہیں

یُونہی غم سے یاری نہیں لگا رکھی ہے جُنید
اِس رِشتے میں چُھپے لاکھوں اَسرار مِلتے ہیں

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ