حرفِ آغاز


میرے آقا حُضُور سیدی اعلٰی حضرت رَضِی اللہ عنہُ اپنے
،شہرہ آفاق کلام حداحِق بخشِش میں فرماتے ہیں

کیسے آقاوں کا بندہ ہُوں رضا
بول بالے میری سرکاروں گے


،اور میرے آقا سیدی باپا امیرِ اہلِسُنت مَدَظِلہ فرماتے ہیں

تُو ہے بے کسوں کا یاور، اے میرے غریب پرور
ہے سخِی تیرا گھرانا، مَدَنِی مَدِینے والے
صلی اللہ علیہِ وَسَلم

،سگِ عطار و رضا
جُنید عطارِی

قُربت میں لاکھوں فاصِلے حائل ہیں


قُربت میں لاکھوں فاصِلے حائل ہیں
میرے دِل کی گلیاں سُونی ہیں یار کے بغیر

یُونہی غم سے آہ نہیں کیے ہیں جُنید
خُود بھی اپنے آپ میں نہیں ہیں یار کے بغیر


میرے دِل کو سُکون سے آسُودہ کردو
میں کب سے بے چین ہوں اپنے یار کے بغیر


میرے مُسکُراتے ہوئے چہرے سے دھوکہ نہ کھانا
میرا دِل غم سے پارا ہو چُکا ہے یار کے بغیر


تنہائی میں یہ بادل کیوں برس رہے ہیں
یہ بادل نہیں آنکھ سے برستی ہے برکھا یار کے بغیر


مت میرے دِل کا حال پُوچھو کیا بتاؤں تُجھ کو
میں محفل میں رہ کر بھی تنہا ہوں اپنے یار کے بغیر


یُونہی آنکھیں نہیں جاگتی ہیں راتوں میں کب سے
تنہائی میں ایک طُوفاں برپا ہے جُنید یار کے بغیر


میں جیت کر یہ میدان خُود ہی ہار رہا ہوں
کہ جیت کر بھی میری ہار ہے یار کے بغیر


چھالے پڑ گئے ہیں پاؤں میں کانٹے بھی چُبھ رہے ہیں
ہر مُشکِل بھی اب آساں ہے مرے یار کے بغیر


سنبھالے رکھا ہے کب سے خُود کو خَوف آتا ہے
ہر خُوشی ہو چُکی ہے ہیچ مرے یار کے بغیر


لاکھ بُلبُل گُنگُناتے ہیں گیت چمن میں پیارے
مُجھے سب فُضول لگتا ہے مرے یار کے بغیر


میں منزل پر پہنچ کر بھی بھٹک چُکا ہوں
کہ آندھا ہوں آنکھوں سے میں یار کے بغیر


گُزرتے ہیں شب و روز محو یاد میں اُن کی
ہوش بھی قائم نہیں رہتے ہیں میرے یار کے بغیر


شہسُوار کا نام عجیب رکھا ہے عاشِق نے
کہ جیت کر بھی وہ ناکام ہے اپنے یار کے بغیر


میں اِمتحاں میں خُودی کو کھوئے جاتا ہوں
عجیب کشمکش کا شکار ہوں میں یار کے بغیر


یُوں کاہے کو ڈبوئے ہو تُم خُود کو دریا میں
یہ دریا وہ ہے جو بہتا ہے آنکھ سے یار کے بغیر


میں سمندر کا بادشاہ ہوں دریاؤں پے راج کرتا ہوں
نَیا ڈُوبا بیٹھا میں چشمے میں اپنے یار کے بغیر


ہر خُوشی پا کر بھی سب کُچھ عجیب سا لگتا ہے
کہ خُوشی بھی اب موت ہے میرے یار کے بغیر


یُونہی غم سے خُوشی سے بغاوت نہیں کر رکھی
کہ ہر غم بھی خُوشی بھی بیکار ہے یار کے بغیر


زخم کھا کر میں کانٹوں سے مُسکُرایا کرتا ہوں
کہ ہر کانٹا بھی اب پُھول ہے میرے یار کے بغیر


میں اکیلا ہی پھنسا ہوں ساحِل پے جُنید
اب ڈُوب کر بچنا بھی موت ہے یار کے بغیر

Download here.

No comments:

Post a Comment

کِسی بھی قِسم کی فُضُول بات نہ لِکھیں۔ کوئی ایسی بات جو غُضہ اُبھارے یا کِسی قِسم کا اِشتعال پیدا کرے سختِی سے منع ہے۔

شُکریہ